تری عظمت کے مقابل مراسجدہ کیاہے․․․․!
از: عزیز بلگامی
سائنس کو اِس بات کا
اعتراف ہے کہ کائنات کا ننانوے فی صد سے بھی زائد مادہ یا Matter نہ ضبطِ جستجو ہی میں آسکا ہے اور نہ
کسی طاقتوردوربین کی نگاہ میں سما ہی سکا ہے۔اِس
ترقی یافتہ دور کے Cosmologistsکا بیان ہے کہ جس قدر کائنات انسانی ادراک کے
احاطے میں آچکی ہے اُس کا مادہ دیگر نامعلوم کائناتوں میں
موجود مادّے کا ایک ادنیٰ سا حصہ ہے۔ شاید یہی
سبب ہے کہ فضائے بسیط میں تیرنے والی کہکشائیں،اِس
بنا پر گم نہیں ہو پاتیں کہ یہ دوسری کہکشاؤں یا کا
سمک مادوں سے کسی قوت کے ذریعہ بندھی ہوئی ہیں۔Big Bang Theory کہتی ہے کہ انتہائی کثیف
اور انتہائی گرم کائنات ابتداء میں ایک جان یا Compact شکل میں تھی۔ پھرایک
زبردست کا سمک Cosmic دھماکہ نے ایک ایسی
صورتحال پیدا کردی کہ کائنات کے پھیلنے کے عمل کا آغاز ہوگیااور
یہ تسلسل کے ساتھ ہر لمحہ جاری ہے۔ 1915ء میں مشہور
سائنسدان البرٹ آئنس ٹائن نےTheory of Relativity پیش کی تھی
اور اِسی تھیوری کی بنیاد پر اسBig Bang Theoryکی صورت
گری ہوئی تھی ۔اکیسویں صدی میں ،
جسے سائنسی دھماکوں کی صدی بھی کہا جاتا ہے،جس دھماکہ خیزواقعہ
کی بظاہر انسانوں کو خبر ہوئی، چودہ سو سال پہلے،جب کہ اُس وقت جدید
سائنس کا جنم بھی نہیں ہوا تھا، ربِّ کائنات نے اپنی آخر ی
کتاب میں کیااس کا تذکرہ نہیں کر دیاتھا؟اکیسویں
سورة” الانبیاء“ کی تیسویں آیت میں نہایت
واضح الفاظ یہ ہیں: ”حقائق کا انکار کرنے والے انسان کیا اتنا
غور نہیں کرتے کہ آسمان اور زمین اور ساری چیزیں ایک
ہی واحد یونٹ کی طرح تھیں، پھر ہم نے انہیں یکبارگی
ہی جدا جدا کردیااور ہم نے مائع (پانی) سے ہر شے میں حیات
ڈالی، تو کیا پھر بھی انہیں ماننا نہیں ہے؟“
پتہ نہیں کتنے
کروڑوں سال قبل یہ واقعہ رو نما ہوا ہوگا ! تاہم چودہ سو سال قبل اِس حقیقت
کی خبرکے پیچھے رب تعالیٰ کی یہی مشیت
کارفرما نظر آتی ہے کہ آسمانی کتاب کے ذریعہ انسانوں پر یہ
حقیقت کھول دی جائے تاکہ دنیا سائنسی دریافتوں اور
اکتشافات کی راہ میں ترقی کرتی چلی جائے۔ لیکن
افسوس کہ انسان پھر بھی بات کو سمجھ نہیں پائے۔یہاں تک کہ
یہ آیت عصرِ حاضر کے انسانوں کے لئے ایک برمحل شہادت بن کر
سامنے آئی اور یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوگئی کہ یہ
کتاب کسی انسانی کاوشِ فکر و نظر کا نتیجہ نہیں ہے۔
اگرچہ کہ خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اعلان فرمادیا
تھا کہ یہ کتاب رب تعالیٰ کی نازل کردہ ہے اور یہ
کوئی انسانی تصنیف نہیں، جسکا ذکرچھبیسویں
سورة الشعراء کی آیات۱۹۲تا ۱۹۵ میں
فرمائی۔” اوراے محمد صلی اللہ علیہ و سلم بیشک یہ
قرآن رب العالمین کی طرف سے آپ کے قلب مبارک پر اُتارا گیا ہے،
جسے جبریل روح الامین لیکر اُترے ہیں، تاکہ آپ ساری
انسانیت کو وارننگ دیدیں، یہ صاف، ششتہ، آسان عربی
زبان میں ہے۔“اس پر مستزاد یہ کہ اٹھائیسویں سورة کی
آیت چھیاسی میں فرمایا : ”اور اے نبی صلی
اللہ علیہ و سلم آپ تو اس کے امید وار بھی نہ تھے کہ آپ پر
آسمانی وحی اتاری جاتی، یہ تو سراسررحمت ہے آپ کے
رب کی ۔“ اور یہ بھی صاف صاف اعلان کروایا کہ اِنْ
اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰی اِلَیَّ،”میں تو صرف
اسی کی اتباع کرتا ہوں جس کی وحی مجھ پررب العالمین
کی طرف سے آتی ہے ۔“
قرآن ِحکیم اُسی باعظمت رب ہی
کی تو کتاب ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو ایک ہی لفظ
”کُن“ سے پیدا فرمادیا۔ وہی ربِّ ذوالجلا ل ہی تو
ہے جو اِس بے پناہ کائنات کے ایک ایک ذرّے کا نہ صرف خالق ہے بلکہ وہ
اُس کی نگہبانی بھی کررہا ہے۔وہ انسان جو اکتشافات
پراِتراتے نہیں تھکتا، اُسے چاہیے کہ کائنات میں اپنی حیثیت
کا ادراک اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر لے۔ وہ انسان جن کے
دامن میں کتاب اللہ کا نور سمٹ آیا ہے،اُن پر بڑی بھاری
ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خاموش بیٹھنے کا تصو ر تک نہ کریں،بلکہ
پیغامِ کتاب اللہ کی ترسیل کو پوری امانت داری کے
ساتھ اپنے سر لیں اور دنیا کے بے نور سینوں کو منور کرتے ہوئے
خود اپنی زندگیوں کو بھی منور کرلیں۔
سائنس کے بے
خداعلمبرداراگر کتابِ اِلٰہی کی طرف رجوع کرتے ہیں تویقینی
ہے کہ سائنسی اکتشافات کی رفتارتیزتر بھی ہوجائے گی
اور اخلاقی ضابطوں میں بندھ کریہ ترقی روحانی قدروں
سے مزیّن بھی ہو جائے گی اورجن تباہ کارو مہلک ہتھیاروں کی
دوڑ میں یہ بے خدا سائنسدان دنیاکے قائدین کو اُلجھا رکھا
ہے اور کاروبار کی نام ونہاد نفع بخشی کے خوابوں کو ان کی بے
نور آنکھوں میں سجا د یا ہے، اگر یہ چاہیں تواِن ہی
ترقیوں کو سسکتی ، بلکتی انسانیت کے زخموں کا مداوابنا
سکتے ہیں۔
مادہ ہو یا
مائع، ہوا ہو یا لوہے کی مانند سخت منرلس، گیسیں ہوں یاٹھوس
اشیاء،نظروں کی گرفت میں آنے والا آسمان ہو یا نہ نظر آنے
والی کائنات،غرض کہ ہر شئے نے اُسی مالک کے ہاتھوں اپنے وجود کا جامہ
پہنا ہے،جس نے نہ صرف کائنات بنا د ی ،بلکہ”کل یوم ھو فی شان“
والی آن بان کے ساتھ ہر لمحہ اسکے تخلیقی کارناموں کا سلسلہ جاری
ہے۔ پھر یہ کہ رب تعالی نے کائنات کو ایک بار وجود عطا
کرکے بس یوں ہی چھوڑ نہیں دیا ہے بلکہ اسے مسلسل وسعت بھی
دئے جارہا ہے۔ جیسا کہ اکاونویں سورت کی سینتالیسویں
آیت میں درج ہے:”اور آسمان کو ہم ہی نے اپنے دستِ قدرت سے بنایا
ہے اور ہم وسعت دئے ہی جاتے ہیں۔“
خلائی سائنس کے
محققین کا حال یہ ہے کہ وہ ثبوت کے نام پر دنیا کے سامنے اب تفصیلات
پیش کر رہے ہیں کہ یہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے
جبکہ اِس ثبوت کے فراہم کیے جانے کے چودہ صدیوں قبل ہی ربَِ
کائنات نے یہ معلومات اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ
و سلم پر اپنی ہی کتاب میں نازل فرما دی تھیں۔
اِس لیے دعویٰ ثبوت کے بجائے مقام عبرت سمجھتے ہوئے مالک کائنات
کی قوتوں اور طاقتوں کا اعتراف ہونا چاہیے، بے بضاعتی و انکساری
کی کیفیت اُبھرنی چاہیے، جملہ انسانوں کے تئیں
فکر مندی اور انصاف پسند ی کے جذبات مستحکم ہونے چاہئیں، ظلم و
زیادتی کے سد باب کے ساتھ انسانی فلاح و بقاکی فکر مقدم ر
ہنی چاہیے، اور جو افراد خو د کوحاملین قرآن کہتے ہیں انہیں
خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر کم از کم اب تو سوچنا چاہئے کہ دنیا کی
سائنسی امامت تو دور کی بات ہے،آخرکیا بات ہے کہ اِس میدان
میں آخری صف میں بھی انہیں کوئی مقام کیوں
حاصل نہیں ! کہیں ایسا تو نہیں کہ کتاب اللہ کو اسکے جائز
وقار اوراِس کی عظمت کو اہمیت نہیں دی گئی ، جیسا
کہ اِس کا حق تھا!!
ویسے بھی
یہ ایک حقیقت ہے کہ سائنسی نظریات بدلتے رہتے ہیں
اوراِن ہی تبدیلیوں کے حوالے سے ارتقاء بھی ہوتا رہتا ہے۔Big Bang Theory کا پیش کیا جانا ہی ایسے
ارتقاء کا ایک ثبوت ہے جس کے ذریعہ یہ حقیقت جاں گزیں
ہو جاتی ہے کہ رب کائنات ہی قوت وحشمت کا سر چشمہ ہے کہ جو ایک سیکنڈ
کے ہزارویں حصے میں ایک ہی دھماکے کے ذریعہ اتنی
عظیم کائنات کو وجود میں لا سکتا ہے اور اُسی کو یہ قدرت
حاصل ہے کہ وہ صور میں ایک ہی پھونک کے ذریعہ اس پوری
کائنات کو ختم بھی کردے؟ہمیں پتہ بھی نہیں کہ کتنے کروڑوں
سالوں پہلے یہBig Bang والا واقعہ ظہور پذیر
ہوا ہوگا؟ضروری بھی نہیں کہ اِس کا ہمیں پتہ ہو۔ہاں!
البتہ ہمیں فکر ہونی چاہیے کہ کب صور میں پھونک دیا
جائے گا کہ جس کے نتیجہ میں کب، کس لمحہ ساری کی ساری
کائنات لپیٹ کر پھینک دی جائے گی!
یہ خبر تو ہمیں
ہے ہی کہ کچھ قوتیں ہیں ، جیسے کشش ثقل ، برقی قوت
،مقناطیسی اور نیوکلیائی قوتیں ،جو ہمارے
اطراف کار فرما ہیں، جن کی تخلیق ایک زبردست قوتوں والے
رب ہی کے دستِ قدرت سے ممکن ہوئی ہے اور اُسی ربِّ باحشمت نے ان
ساری طاقتوں کو پھیلادیا ہے ۔ نظریہ کہتا ہے کہBig Bangکے معاً بعد اگلے ہی
لمحے پروٹون تیار ہوئے، پھرفوراً ہی پروٹون اور نیوٹران کے باہمی
ملاپ سے مرکزے یا Neucleous وجود میں آئے،Big bang کے کئی ملین سالوں بعد تک
وجود میں آنے والی گرمی ایک مقرر رفتار سے ٹھنڈی
ہوتی رہی، پھر پروٹون اور الکٹرون کے باہمی میل سے ہائیڈروجن
کے جوہر وجود میں آئے۔گو کہ یہ معلومات حیرت انگیز
ہیں، تاہم سائنس کی اِن معلومات کوکبھی حتمی نہیں
کہا جاسکتا۔1929 ء کے بعد سے آج تک مزید انکشافات کے سبب اس تھیوری
میں تبدیلیاں ہوتی چلی جا ر ہی ہیں۔
مثلاًفضا میں ہیلیم گیس کی غیر موجودگی
سے کئی نئی تحقیقات سامنے آرہی ہیں۔ اس ساری
صورتحال میں ہمیں دو سبق ضرور ملتے ہیں۔ اولاً یہ
کہ خالقِ کائنات کی قوت کا اندازہ لگانا کسی مخلوق کے بس کی بات
نہیں ۔ثانیاً، یہ کہ ایک طرف اس کائنات کو صور میں
ایک ہی پھونک سے ختم کرنے کے بعد صور میں دوسری پھونک سے،
ایک لمحے کے توقف کے بغیر اپنی مرضی کی شکل و صورت
میں وہ دوبارہ پیدا کرنے پر قادرہے۔ اِن دونوں اسباق کا تذکرہ
خالقِ کائنات نے اپنی کتاب میں کر دیا ہے اور ایک تیسرے
سبق کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔یہ
تیسرا سبق ہمیں چالیسویں سورہ کی ستاونویں آیت
میں موجود ہے کہ:”آسمانوں اور زمین کی تخلیق انسانوں کی
تخلیق سے بھی بڑا کام ہے ! لیکن انسانوں کی اکثریت
اس کا احساس نہیں کرپاتی۔“
یہ ایک ایسی
حقیقت ہے کہ جس سے سائنسدانوں کی ایک بڑی تعداد بے خبر ہے
۔ اگر وہ بندگانِ خدا، جنہیں کتاب اللہ کی امانت دی گئی،
ان آیتوں میں موجود حقائق سے اِن زیرک انسانوں کو باخبر کردیں
تو کیا عجب کہ یہ لوگ بھی آخرت کے انجام سے واقف ہو جائیں
اور اپنی مغفرت کی فکر کرنا شروع کردیں۔ورنہ ہوگا یہ
کہ یہ حضرات صرف کائناتی حقائق کے ثبوت ہی پہنچاتے پہنچاتے خدا
کے حضور بے نیل و مرام پہنچ جائیں گے اور اہلیانِ کتاب کو کوستے
رہ جائیں گے کہ انہوں نے کبھی قرآنی حقائق سے ہمیں آشنا
نہیں کیا۔ کیا عجب کہ اُخروی ناکامیابیوں
کے غار میں انہیں بھی دھکیل دینے کی یہ
سائنسدان ایک بڑی وجہ بن جائیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جن
کے پاس اللہ کی کتاب ہے وہ کتاب اللہ سے اپنے رشتے کو مضبوط کرنے سے پہلو تہی
کرتے ہیں۔وہ محدود فروعی معاملات ، رسم ورواج اور طریقہ
ہائے عبادت کی جزئیات میں گم ہو کر رہ گیے ہیں۔ورنہ
سائنسی علوم میں مہارت کے ساتھ ان تمام علوم کے مثبت استعمال کے ذریعہ
انسانیت کے دکھوں کا مداوا اب بھی ممکن ہے۔ یہ دنیا
اپنی حسین و جمیل تابناکی کے ساتھ تمام باشندوں کے لئے امن
و شانتی کا گہوارہ بن سکتی ہے ۔ انسانیت کی انسانیت
اپنی زندگی کی آخری منزل یعنی آخرت میں
اپنے رب کی رضا اور مغفرت حاصل کرنے کی طرف مائل ہو سکتی ہے،
ابد الآباد جنت کی مستقل و پائیدار آسائشوں کی حقد ار بن سکتی
ہے۔
سوال یہ ہے کہ
اتنی کاملیت کے ساتھ ایک ہیbangمیں کس نے اس کائنات کو وجود بخشا؟ کون ہے جس نے ان
ساری چیزوں کی تخلیق فرمائی؟پھران کے وجود کا مقصد
کیا ہے؟کیا یہ سب محض یوں ہی بے مقصد پیدا کیے
گیے ہیں ۔؟یہ اور ایسے سوالا ت کی تحقیق
کے لئے اگر انسانیت کے سامنے آسمانی کتاب ہوتی تو ایک طویل
عمر کی ضرورت نہ پڑتی۔لیکن واضح رہے کہ یہ تحقیق
اُس تحقیق سے اہم نہیں کہ جس میں یہ معلوم کیا جائے
کہ ہمارا مقصدِ پیدائش کیا ہے؟ اورہماری وجہِ تخلیق کیا
ہے؟ یہ کوشش ہمیں اس حقیقت کی طرف لے جاتی ہے کہ ہم
یہاں تھے نہیں بلکہ بھیجے گئے ہیں اور ہمیں اپنے
مقررہ وقت پر یہاں سے لوٹ بھی جانا ہے۔پھرسوال یہ اُٹھتا
ہے کہ کہاں لوٹ کر جانا ہے اوردنیا میں ہمارے قیام کے بعدہماری
حتمی منزل کیا ہے ؟ رب ذوالجلال ہم سے تیئیسویں
سورة کی ایک سو پندرھویں آیت میں ہم سے پوچھتا ہے:
”انسانو!کیا تم یہ سوچتے ہو کہ ہم نے تمہیں یونہی
بے مقصد پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف لوٹ کر آنا نہیں
ہے؟“ ہر ایک انسان کو اپنے اپنے وقت پرلوٹنا ہے، موت پر کبھی فتح نہیں
پائی جاسکتی، زندگی اور موت کے خالق ہی نے چھپن ویں
سورہ کی ساٹھویں آیت میں اعلان کردیا ہے کہ:”ہم نے
تمہاری تقدیر میں موت کو لکھ دیا ہے اور تم( ہمیں
اس سے روک نہیں سکوگے) سبقت نہیں لے جا سکوگے۔“پھر اس موت کے
بعد ہمیں جانا کہاں ہے اور وہاں کیا ہونے والا ہے؟اس کے جواب میں
ہماری موت اور حیات کا مالک ہم سے پندرھویں سورت کی پچاسیویں
اور چھیاسیویں آیات میں ہمیں اپنے جواب سے
سرفراز فرماتا ہے:”اورہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان
ہے، نہیں تخلیق کیامگر ایک با مقصد حق کے ساتھ اور بے شک
قیامت کی ساعت کا لمحہ ضرور آکر رہے گا۔ سوجو لوگ ان حقائق کو
نہیں مان رہے ہیں ان سے پروقار طریقے سے درگذر کریں۔بے
شک آپ کا رب ہی خلّاق ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے۔“
یہ حقیقت
ہمیں فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ایک ہی ’کُن‘
اور Bangکوایک بار پھر
وقوع پذیر ہونا ہے،جب ساری کائنات ایک ہی لمحہ میں
ختم کردی جائے گی۔جسے قرآنِ حکیم” صورمیں
پھونک“کہتا ہے، پھر ایک اور ’کُن ‘ کے ساتھ تمام ذی اختیار
مخلوق اپنے دفترِ اعمال کے ساتھ کھڑی ہوگی جسے دنیاوی
زندگی کے امتحان میں شریک کیا گیاتھا۔ پھر
حساب لیا جائے گا کہ اِس مخلوق نے اپنے فرائض نبھائے یا نہیں؟اپنی
ذمہ داریاں ادا کیں یا نہیں؟انہیں اپنی ہستی
کی پہچان ہوگئی تھی یا نہیں؟یا وہ پنی
طاقت کے نشے میں چور ہی رہے! کہیں ایسا تو نہیں کہ
انسان نے اپنی طاقت کو اپنی جیسی مخلوق کی فلاح و
بہبود پر استعمال کرنے کے بجائے مظالم ڈھانے کے لیے استعمال کیا
تھا؟کہیں ایسا تو نہیں کہ جس مقام پر اُسے رب نے آباد کیا
تھاوہاں وہ اپنے گرد و پیش کے لیے بے ثمر ثابت ہوئی اورباعثِ
فساد بن گئی؟اپنے فرائض کی انجام دہی کو اپنی من مانیوں
کے حوالے کیا؟
حقیقتاًدوسروں
کی فکر سے زیادہ ہمارے لئے اہمیت اس سوال کی ہونی
چاہئے کہ ہمارے کیافرائض ہیں، جنہیں ہمیں سر انجام دینا
ہے؟پہلے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کس نے ان فرائض کو ہم پر عائد
کیا ہے؟اِن فرائض کی مکمل بجاآوری پرکس صلہ کی ہمیں
اُمید ہونی چاہیے؟ورنہ کس سزا کا ہمیں اندیشہ لاحق
ہونا چاہیے؟پھر یہ کہ ان سوالات کے جوابات کے ہم خود مکلف ہیں یا
ہمیں اپنے خالق ، مالک اور ربِّ اعلیٰ سے رجوع ہونا ہوگا۔!
سچی بات تو یہ ہے کہ ہم ان بنیادی سوالات کے جوابات دینے
کے قابل ہی نہیں ہیں۔”صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں
کے لیے“ کے مصداق ہم دعو ت دیتے ہیں کہ ہم سب مل کر اپنے خالق ہی
سے پوچھیں کہ پروردگار! ہمیں اِن اُمورمیں اپنی رہنمائی
سے نوازیو․․․․! رب تعالےٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اُس نے کتابِ ہدایت
میں ہمارے اِن سارے سوالوں کے جواب پہلے ہی صاف اور واضح طور پر عطا
کر دیے ہیں۔ وہی کتابِ ہدایت جس کے سوا کوئی
کتاب ہدایت نہیں․․․․ جو عرشِ اعظم سے عربی مبین میں نازل شدہ ہے اور آج بھی
دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں یہ موجود نہیں۔
ہر شخص کو کم از کم اتنی کوشش تو ضرور کرنی چاہیے کہ وہ اپنے
مالک کے احکام کا علم حاصل کرے۔ دنیا میں کسی کو دو وقت کی
روٹی بھی بغیر محنت کے میسر نہیںآ تی۔
لیکن مالک کے احکام معلوم کرنے کے لیے اتنی محنت کی ضرورت
بھی نہیں۔بس اتنا کرنا ہے کہ کتابِ ہدایت سے رشتہ ایک
بار استوار ہو جائے، ہر روز اس سے یہ معلوم کیا جائے کہ ہمارے کن
کاموں سے رب ناراض ہو تا ہے اور کن کاموں سے اُس کی خوشنودی حاصل ہوتی
ہے۔اُس کی نظرمیں ایک کامیاب زندگی کیا
ہے۔ یہی ایک محفوظ راستہ دکھائی دیتا ہے ہماری
دنیا کی زندگی کو سدھارنے کا اور یہی ایک
راستہ باقی رہتا ہے ہماری دوسری اورآخری زندگی میں
کامیابی حاصل کرنے کا۔
تری عظمت کے مقابل مرا سجدہ کیاہے
کوہ احسان ترے شکر مرا رائی ہے
***
_____________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 11 ، جلد: 93 ذیقعدہ
1430 ھ مطابق نومبر 2009ء